تہوار؛ خوشیوں کا میلہ یا جھمیلا ! تہوار کو زیادہ خوشگوار کیسے بنائیں

معروف ماہرِنفسیات افتخار مسعود وڑائچ کی تہوار کے نفسیاتی پہلوں پر انتہائی کارآمد تحریر

تہواروں کے ساتھ عام طور پر خوشی، مسرت اور سکون کے جذبات جڑے ہوتے ہیں۔پاکستان میں منانے جانے والے تہواروں سے وابستہ رونق اور راحت کو ہر کوئی محسوس کر سکتا ہے۔ اس کے لیے کسی لمبی جوڑی گفتگو یا بحث کی ضرورت نہیں محسوس نہیں ہوتی۔ پھر بھی حالیہ برسوں میں تہواروں کے حوالے کچھ سائنسی تحقیقات ایسی بھی ہوئی ہیں جن میں تہواروں کے حوالے سے کچھ اہم پہلو سامنے آئے ہیں۔ ان کا جاننا بہت ضروری ہے خاص طور پر جب ایسی معلومات کی مدد سے تہواروں زیادہ خوشگوار اور پُر مسرت بنایا جا سکے۔ آئیے پہلے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ تہواروں کے نفسیاتی اور سماجی فوائد کیا ہیں ۔

خوشیوں کا جشن

کسی بھی معاشرے میں تہوار نہ صرف خوشیوں کے موقع ہوتے ہیں بلکہ یہ تعلقات کو مضبوط بنانے اور ذہنی صحت کو بہتر کرنے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ قدیم تہذیبوں سے لے کر آج تک، دنیا کے ہر معاشرے میں تہواروں کو زندگی کے لازمی جزو کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ بابلی اور سمیری تہذیبوں میں اکیٹو اور زگمک جیسے تہواروں کو خوشحالی اور نئی شروعات کی علامت سمجھا جاتا تھا، جبکہ مصریوں کے ہاں دریائے نیل کے بہاؤ کو جشن کے طور پر منانے کی روایت تھی۔ آج بھی دنیا بھر میں دیوالی، کرسمس، عید، چینی نیا سال اور دیگر تہوار لوگوں کو جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔

Hari Raya Aidilfitri/Idul Fitri Celebration

مضبوط رشتے، بہتر ذہنی صحت

تہواروں کے سب سے بڑے فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ یہ ہمارے سماجی تعلقات کو مضبوط بناتے ہیں۔ خاندان کے افراد، دوست احباب اور قریبی لوگ تہوار کے موقع پر مل بیٹھتے ہیں، جو روزمرہ کی مصروف زندگی میں ممکن نہیں ہوتا۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جو لوگ سماجی تعلقات میں زیادہ مضبوط ہوتے ہیں وہ نہ صرف زیادہ خوش رہتے ہیں بلکہ ذہنی دباؤ، اضطراب اور ڈپریشن کا شکار بھی کم ہوتے ہیں۔

چھٹی وقفہ اور تازگی

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ تہوار ہمیں زندگی کی دوڑ دھوپ سے ایک وقفہ لینے اور خود کو ذہنی طور پر تازہ دم کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ مسلسل دباؤ، ملازمت یا دیگر ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبے لوگ تہواروں کے ذریعے خود کو ری چارج کرتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، تہواروں میں شرکت کرنے والے افراد عام طور پر زیادہ خوش اور مطمئن محسوس کرتے ہیں، کیونکہ یہ موقع انہیں اپنی پریشانیوں کو پس پشت ڈال کر خوشی کے لمحات گزارنے کا موقع دیتا ہے۔

خوشگوار یادیں

تہوار صرف چند دن کی خوشیوں تک محدود نہیں ہوتے، بلکہ ان سے جڑی یادیں زندگی بھر ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔ ایک ماہرِ نفسیات کے مطابق، تہواروں کے دوران تخلیق ہونے والی خوشگوار یادیں ایک طرح سے “دماغی بینک” کی حیثیت رکھتی ہیں، جہاں مثبت تجربات محفوظ ہو جاتے ہیں اور مشکل وقت میں یہی یادیں ہمیں سکون اور حوصلہ فراہم کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کئی روایتی تہوار، جیسے میکسیکو میں ڈے آف ڈیڈ یا جاپان میں اُبان فسٹیول، اپنے بچھڑے ہوئے پیاروں کی یاد میں منائے جاتے ہیں، جو لوگوں کو جذباتی طور پر جڑے رہنے میں مدد دیتے ہیں۔

مسلم دنیا اور پاکستان میں منائے جانے والے تہواروں کی اہمیت

پاکستان میں منائے جانے والی تہواروں میں ہماری دو عیدیں سب سے زیادہ اہم ہیں ۔ یہ دو موقعے صرف خوشی میل ملاپ اور ہنسی مذاق کا موقع ہی فراہم نہیں کرتے بلکہ ان سے ایک روحانی سکون بھی جُڑا ہوتا ہے۔

ہماری مقامی ثقافت میں بسنت اور وساکھی جیسے تہوار بھی منانے جاتے تھے جو بہت پُر رونق اور خوش کُن ہوتے تھے۔ لیکن وہ بدلتے وقت اور حالات کی نذر ہو گئے ہیں۔ ان کی جگہ اب حکومتی سطح پر ترتیب دے گئے پروگرامز اور مواقع کو اہمیت دی جا رہی ہے ۔

تہوار اور اُن کے مسلے

مالی اور ذہنی دباؤ

تاہم، جہاں تہوار خوشی اور مسرت کا باعث بنتے ہیں، وہیں کچھ لوگ انہیں دباؤ کا سبب بھی سمجھتے ہیں۔ ایک امریکی تحقیق کے مطابق، تہواروں کے موقع پر 72 فیصد افراد اضافی مالی اخراجات کے باعث ذہنی تناؤ محسوس کرتے ہیں۔ تحائف، نئے کپڑے، کھانے پینے کے اہتمام اور دیگر تیاریوں میں خاصی رقم خرچ ہوتی ہے، جو بعض اوقات لوگوں کی مالی حالت پر بھاری پڑ سکتی ہے۔

پاکستانی اور بھارتی معاشروں میں عید اور دیوالی جیسے تہواروں کے دوران خواتین پر غیر معمولی دباؤ ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف گھر کی صفائی، کھانے پکانے اور مہمان نوازی جیسے کاموں کی ذمہ دار ہوتی ہیں بلکہ بچوں اور بڑوں کے لیے شاپنگ کا انتظام بھی انہیں ہی کرنا پڑتا ہے، جو جسمانی اور ذہنی تھکن کا سبب بن سکتا ہے۔

ہلچل اور ہنگامہ

کچھ افراد کی فطرت زیادہ میل جول اور ہلچل پسند نہیں کرتے،لیکن سماجی دباؤ کی وجہ سے انہیں تہواروں میں شرکت کرنی پڑتی ہے، جو ان کے لیے ذہنی دباؤ کا باعث بن سکتا ہے۔

اپنوں سے دور بسنے والوں کے جذبات

ایسے افراد جو بیرون ملک مقیم ہیں، تہواروں کے موقع پر اپنے پیاروں سے دوری کا زیادہ احساس کرتے ہیں۔ نوسٹیلجیا کا یہ احساس بعض اوقات اداسی اور ڈپریشن کی شکل اختیار کر سکتا ہے، خاص طور پر جب اردگرد کے سب لوگ اپنے خاندانوں کے ساتھ خوشی منا رہے ہوں۔

تہواروں کو دباؤ سے آزاد اور زیادہ خوشگوار بنانے کی تجاویز

اخراجات کو قابو میں رکھیں

یہ سب مسائل اپنی جگہ، لیکن اگر ہم تھوڑی سی حکمتِ عملی اپنائیں تو تہواروں کو زیادہ خوشگوار اور فائدہ مند بنا سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اخراجات وسائل کے مطابق کیے جائیں تاکہ تہوار کے بعد مالی دباؤ کا سامنا نہ ہو۔

خواتین کو نہ بھولیں

خواتین کے لیے تہوار کا مطلب صرف کام کا بوجھ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ انہیں بھی خوشیوں میں برابر شریک کرنا چاہیے۔ اگر تمام گھر والے کام بانٹ لیں تو تہوار کا اصل مزہ سب کے لیے یکساں ہوگا۔

پسند اپنی اپنی

اسی طرح، اپنی شخصیت اور مزاج کے مطابق تہوار منانا بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی زیادہ بڑے اجتماعات کو پسند نہیں کرتا تو اسے یہ حق دیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے انداز میں سکون کے ساتھ تہوار گزارے۔

سوشل میڈیا کا دن

آج کل تہواروں میں سوشل میڈیا کا کردار بھی بہت بڑھ گیا ہے، لیکن اس کی وجہ سے حقیقی میل جول کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ تہوار کے موقع پر پہلے سے تہنیتی پیغامات تیار کر لیے جائیں تاکہ اصل دن فیملی اور دوستوں کے ساتھ ذاتی وقت گزارا جا سکے۔

خوشیوں کا دن اسے خود بناہیں

ان چھوٹے چھوٹے اقدامات کے ذریعے ہم تہواروں کو زیادہ بامعنی، خوشگوار اور سب کے لیے فائدہ مند بنا سکتے ہیں۔ اصل خوشی ان لمحات کو دل سے محسوس کرنے اور دوسروں کے ساتھ بانٹنے میں ہے، نہ کہ رسمی طور پر صرف روایات نبھانے میں۔تو پھر ان اچھی باتوں کا آغاز اس آنے والی عید سے ہی کیوں نہ کریں ۔ اسے ایک راحت انگیز پُر مسرت اور خوشگوار دن بناہیں۔ ہم آپ کے لیے خوشیوں بھرے بہت سے دنوں کی دُعا کرتے ہیں۔

افتخار مسعود ؤڑائچ

مصنف معروف ماہرِ نفسیات ہیں اور ملتان میں مقیم ہیں۔

رابطہ۔ فون 03006370445

    Read Previous

    ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن

    One Comment

    • Very insightful 👍

    Leave a Reply

    آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

    Most Popular