
دنیا کے معروف سائنسدان میشیو کاکو کے کائنات کے بارے میں حیرت انگیز انکشافات
بظاہر یہ عنوان کسی فیک نیوز کا حصہ یا کسی خبطی فلاسفر کا گمراہ کن پراپیگنڈا لگتا ہے، لیکن جس مصدقہ خبر کی بنیاد پر ہم نے یہ مضمون لکھا، وہ دنیا کے معروف ترین سائنسدان کا ایک اہم بیان ہے۔ بظاہر یہ بات ہمارے لیے بھی چونکا دینے والی تھی کہ ہمارا معلوم سائنسی علم بالکل غلط بنیاد پر کھڑا ہے۔
یعنی، انسان نے صدیوں کا سفر طے کر کے اپنے جہان کو جو جانا، سمجھا اور جس علم کی بنیاد پر حیرت انگیز ترقی بھی کی، اب کوئی اس علم کے بارے میں کہے کہ وہ غلط تھا، اور بات کرنے والا کوئی عام آدمی بھی نہ ہو، بلکہ دنیا کا مشہور ترین سائنسدان ہو، تو پھر انسان کے لیے حیران بلکہ پریشان ہونے کا موقع تو ضرور ہوتا ہے۔
جی ہاں، دنیا کے مشہور سائنسدان کاکو نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر ہم ساری کائنات کو صرف نظر آنے والے مادے اور اس کے چھوٹے ذرات (ایٹمز) پر ہی مشتمل سمجھتے تھے، تو یہ بالکل غلط تھا۔ کیونکہ ہمارے متحرک سیارے، چمکتا سورج اور جگمگاتی کہکشائیں دراصل کائنات کا صرف پانچ فیصد حصہ ہیں۔ باقی پچانوے فیصد کائنات کیا ہے؟ اس کے بارے میں کاکو نے حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں۔
کاکو کا کہنا ہے کہ ہم برسوں سے بچوں کو یہ پڑھا رہے ہیں کہ ہماری تمام کائنات نظر آنے والے مادے اور محسوس کی جا سکنے والی توانائی سے بنی ہے، اور یہ مادہ ایٹمز پر مشتمل ہے۔ لیکن یہ علم نامکمل، بلکہ ایک لحاظ سے غلط بھی ہے۔ کاکو کا کہنا ہے کہ کائنات کا 95 فیصد حصہ ایک پراسرار مگر نظر نہ آنے والے مادے یعنی “ڈارک میٹر” اور “ڈارک انرجی” پر مشتمل ہے، جس کے بارے میں ابھی ہم بہت کم جانتے ہیں۔
یہ نہ نظر آنے والا مادہ کیا ہے؟
ہمارے سیارے، ستارے، اور ہر وہ چیز جس کا ہم مشاہدہ کر سکتے ہیں، دراصل کائنات کا صرف پانچ فیصد ہے، جبکہ اٹھائیس فیصد مادہ ایسا ہے جو ہمیں نظر نہیں آتا، مگر پوری کائنات میں اور ہمارے اردگرد موجود ہےیہ مادہ ہمیں اس لیے نظر نہیں آتا کہ یہ نہ تو روشنی خارج کرتا ہے، نہ روشنی کو جذب کرتا ہے،اور نہ ہی اسے منعکس کرتا ہے۔ اسی وجہ سے انسانی آنکھ اور ہمارے دوسرے آلات جیسے دوربین اسے دیکھنے سے قاصر ہیں۔ لیکن نہ نظر آنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ موجود نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق، ڈارک میٹر کے اربوں ذرات روزانہ ہمارے آس پاس سے، بلکہ ہمارے جسم کے اندر سے بھی گزرتے ہیں
ہم نے ڈارک میٹر کے بارے میں کیسے جانا؟
جب کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی تو اس کے بارے میں جاننا ممکن کیسے ہوا؟ دراصل، ڈارک میٹر کے بارے میں ہمارا علم جدید سائنسی مشاہدات اور تجربات پر مبنی ہے۔سائنسدانوں نے مشاہدہ کیا کہ کہکشائیں اور ان کے اندر موجود اجسام (ستارے اور سیارے) جس تیزی سے حرکت کر رہے ہیں، وہ ہماری معلوم قوتوں، جیسے کششِ ثقل کے ذریعے متوازن نہیں رہ سکتے۔ انہیں کوئی اور چیز سنبھالے ہوئے ہے، جو انہیں گرنے یا ٹوٹنے سے بچا رہی ہے۔
• مزید تجربات سے یہ معلوم ہوا کہ کہکشائیں ایک نظر نہ آنے والے مگر موجود مادے میں لپٹی ہوئی ہیں، جسے ہم ڈارک میٹر کہتے ہیں۔
• چونکہ یہ ذرات روشنی سے کسی طرح متاثر نہیں ہوتے، اس لیے انہیں انسانی آنکھ یا دوربین سے نہیں دیکھا جا سکتا، لیکن جدید آلات کے ذریعے ان کا پتہ لگایا جا رہا ہے۔اسی لیے دنیا کی بڑی سائنسی لیبارٹریوں میں ڈارک میٹر پر تیزی سے تحقیق جاری ہے۔

ڈارک انرجی: ایک بے پناہ طاقت
ڈارک میٹر سے بھی زیادہ پراسرار اور طاقتور چیز ڈارک انرجی ہے۔ یہ بھی نہ نظر آنے والی وہ قوت ہے جو کائنات میں ہر طرف بہت بڑی مقدار میں موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کائنات کا 68% حصہ ڈارک انرجی پر مشتمل ہے۔
ہم نے ڈارک انرجی کے بارے میں کیسے جانا؟
• سائنسدانوں نے مشاہدہ کیا کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے، اور اس کے لیے درکار توانائی ہماری معلوم انرجی کے ذرائع سے زیادہ ہے۔
• یہ اس طرف واضح اشارہ تھا کہ کوئی بہت بڑی مقدار میں توانائی موجود ہے، جو کائنات کے اجسام کو ایک دوسرے سے دور دھکیل رہی ہے۔
• تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ کائنات کا 68% حصہ اس “ڈارک انرجی” پر مشتمل ہے۔
ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کے ہماری دنیا پر اثرات
یہ نظر نہ آنے والا مادہ اور توانائی ہماری معلوم دنیا پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں؟ اس پر تحقیق ابھی جاری ہے، اور ہمیں اس بارے میں زیادہ معلوم نہیں۔
• سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ ڈارک میٹر کششِ ثقل (Gravity) کے تابع نظر آتا ہے، لیکن اس کا حتمی ثبوت موجود نہیں۔
• کچھ تحقیقات یہ بھی بتاتی ہیں کہ ڈارک میٹر کے ذرات ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں، لیکن ان کے اثرات کیا ہیں؟ اس کا پتہ لگانے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
سائنسی تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا
معروف سائنسدان کاکو نے جو بات کی ہے، وہ عالمی تعلیمی نظام کے بارے میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کی درسگاہوں میں جو تعلیم دی جا رہی ہے، وہ نامکمل اور ناکافی ہے۔
• طلبہ کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ کائنات میں نظر نہ آنے والا مادہ اور توانائی موجود ہیں۔
• انہیں یہ سکھایا جانا چاہیے کہ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کی تحقیق سائنسی نصاب کا حصہ ہونی چاہیے، تاکہ مستقبل میں نئی دریافتیں ممکن ہو سکیں۔
پاکستان کے تعلیمی نظام میں سائنسی تعلیم
پاکستان میں سائنسی تعلیم نہ صرف پرانی معلومات پر مبنی ہے، بلکہ جدید تحقیق کے مطابق بھی نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ:
• اپنے تعلیمی نصاب کو اپ ڈیٹ کریں اور جدید سائنسی دریافتوں کو اس میں شامل کریں۔
• طلبہ کو وہ سائنسی علم دیں جو انہیں آنے والے دور کی سائنسی ایجادات اور دریافتوں کا حصہ بنا سکے۔
جیسا کہ ہمارے عظیم سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کی مثال موجود ہے، جنہوں نے پاکستان میں رہ کر نہیں، بلکہ دنیا کے جدید تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں جا کر سائنس میں انقلاب برپا کیا۔
کیا معلوم سائنسی غلطیاں قدیم نظریات کی فتح ہیں؟
اگر کچھ لوگ سائنسی غلطیوں کو بنیاد بنا کر پورے سائنسی علم کو مسترد کر دیں اور قدیم نظریات کو دوبارہ درست ماننا شروع کر دیں، تو یہ درست طرزِ عمل نہیں ہوگا۔
سائنس کا حسن یہی ہے کہ یہ اپنی غلطیوں کو درست کرتی ہے، اور نئے حقائق کی تلاش جاری رکھتی ہے۔
سائنس کبھی “حتمی سچ” نہیں ہوتی، بلکہ ہمیشہ تحقیق اور تجسس کے دروازے کھولتی ہے۔ یہی سائنس کی اصل خوبصورتی ہے۔
One Comment
بہت شاندار اور خوب تحقیق کے بعد لکھا گیا مضمون ہے۔ امید ہے آپ مزید ایسا ہی لکھتے رہیں گے اور ہماری راہوں کو جگمگاتے رہیں گے۔