چھ نہروں کا مسئلہ۔ اصل تنازع کیا ہے؟

Green Pakistan initiative, Concept and controversy

آخر یہ چھ نہروں کا مسئلہ کیا ہے جس کی وجہ سے سندھ کئی ماہ سے سڑکوں پر ہے؟ حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں اور ماہرین آپس میں الجھ رہے ہیں۔ پاکستان کے عام لوگوں کو بظاہر اس مسئلے کی تفصیلات کا کچھ خاص علم نہیں، اور نہ کوئی انہیں بتانے کو تیار ہے۔

لیکن یہ منصوبہ در اصل ہے کیا؟ ان تفصیلات کو جاننا جتنا سندھ کے لوگوں کے لیے ضروری ہے، اتنا ہی پنجاب کے عوام کے لیے بھی اہم ہے۔ شمالی، وسطی اور جنوبی پنجاب کے لوگ جو خود کو اس منصوبے سے عمومی طور پر لا تعلق سمجھتے ہیں، انہیں اس معاملے کا مکمل ادراک ہونا چاہیے۔

اس جامع اور عام فہم مضمون میں ہم وضاحت سے بتانے کی کوشش کریں گے کہ “گرین پاکستان انیشیٹیو” ہے کیا؟ اس کے لیے بنائی جانے والی چھ نہریں کہاں سے نکالی جائیں گی؟ زمین کس کو اور کیوں الاٹ کی گئی ہے؟ اور فریقین کا اس پر کیا مؤقف ہے؟ اگر سندھ اپنا مؤقف بیان کر رہا ہے، تو پنجاب کے لوگوں کو کن نکات پر غور و فکر کرنا چاہیے؟

ہم غیر جانبداری کے ساتھ تمام حقائق آپ کے سامنے رکھیں گے، اور یہ فیصلہ آپ پر چھوڑیں گے کہ کون درست ہے اور کون نہیں۔ البتہ اپنی رائے اور ماہرین کی تجاویز سے ضرور آگاہ کریں گے۔

گرین پاکستان انیشیٹیو 

یہ منصوبہ دراصل گرین پاکستان انیشیٹیو کے تحت شروع کیا گیا ہے، جس کے لیے 4.8 ملین ایکڑ سرکاری زمین مختص کی گئی ہے، جو سرمایہ کاروں کو 30 سالہ لیز پر دی جائے گی۔ اس کا مقصد جدید طریقوں سے زرعی کاشت کاری کو فروغ دینا ہے، جسے “کارپوریٹ فارمنگ” کہا جاتا ہے۔

انگریزی روزنامہ “دی نیوز” کی رپورٹ کے مطابق یہ زمین اسپیشل انیشیٹیو فار انویسٹمنٹ کونسل کی نگرانی میں دی جا رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک کمپنی رجسٹر کی گئی ہے، جس میں رپورٹ کے مطابق 90 فیصد حصص فوج کے زیرِ ملکیت ہیں۔ زمین صوبائی حکومتوں سے لیز پر لی جائے گی اور 30 سال کے لیے بڑے سرمایہ کاروں کو دی جائے گی۔ آمدنی کا 20 فیصد تحقیق پر، 40 فیصد متعلقہ صوبائی حکومت اور 40 فیصد کمپنی کے مالک قومی ادارے کو جائے گا۔

ابھی تک پنجاب کے مختلیف اضلاح میں 45 ہزار ایکٹر زمین فوج کے حوالے کی جا چُکی ہے ۔ یہ زمین مارچ 2023 میں نگران حکومت نے ایک معاہدے کے تحت معیا کی۔ البتہ بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے حکومت کو اس سلسلے میں مزید کسی پیش رفت سے روک دیاہے۔

منصوبہ سازوں کا کہنا ہے کہ بنجر علاقوں کو سرسبز بنانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ آنے والے وقت میں پاکستان کی غذائی ضروریات پوری کی جا سکیں اور زراعت سے حاصل ہونے والی آمدنی معیشت کو سہارا دے سکے۔

نہریں کہاں سے نکالی جاہیں گی

اس منصوبے کے لیے مختص کی جانے والی زمین کو سہراب کرنے ے لیے نئے نہریں بنانے کا ایک بڑا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔ یہ نہریں کہاں سے نکالی جاہیں گی اس کی تفصل نیجے درج کی جا رہی ہے۔

محفوظ شہید کینال (چولستان کینال):

اس منصوبے کی سب سے اہم نہر جس پر بظاہر  توکسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے وہ دریائے ستلج پہ ہیڈ سلیمانکی  سے نکالی جائے گی منصوبہ سازوں کا کہنا ہے کہ برسات کے موسم میں اس دریا میں وافر مقداد میں جو پانی آتا ہے اس کو استعمال کرکے چولستان کی زمینوں کو سیراب کیا جائے گا۔

 یہی وہ نہر ہے جس کے ایک مقام پر پچھلے دنوں جناب وزیر اعظم اور جناب آرمی چیف نے اکٹھے کھڑے ہو کر اس منصوبے کا باقاعدہ اافتتاع کیا۔ اس نہر کی کل لمبائی 176 کلومیٹر ہے اور اس کی پانی کی گنجائش 4,120 کیوسک ہے۔ اس نہر کے ذریعے چولستان کے علاقے میں تقریباً 12 لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو قابلِ کاشت بنایا جائے گا۔ یہ نہر جون سے اکتوبر کے دوران سیلابی پانی پر انحصار کرے گی، جب کہ باقی مہینوں میں پنجاب کے حصے کے پانی سے چلے گی۔ اس منصوبے کو انڈس ریور سسٹم اتھارٹی ارسا سے باقاعدہ منظوری مل چکی ہے اور اس تعمیراتی کام تیزی سے جاری تھا۔ تاہم چند دن پہلے حکومت سندھ کو دی جانے والی رپورٹ کے مطابق اس نہر پر تعمیراتی کام اب روک دیا گیا ہے۔

گریٹر تھل کینال 

یہ نہر دریائے سندھ پر چشمہ بیراج سے نکالی جائے گی اور تھل دوآب کے علاقے میں تقریباً 15 لاکھ ایکڑ زمین کو سیراب کرے گی۔ اس منصوبے کا پہلا مرحلہ 2008 میں مکمل ہو چکا ہے، جب کہ دوسرے مرحلے کو نیشنل اکنامک کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے منظور کر لیا ہے، تاہم یہ منصوبہ مشترکہ مفادات کی کونسل سے حتمی منظوری کا منتظر ہے۔

رینی کینال فیز 2

یہ نہر دریائے سندھ پر گدو بیراج سے نکالی گئی ہے۔ اس کا مقصد سندھ کے نارا ریجن میں 4 لاکھ ایکڑ زمین کو سیراب کرنا ہے۔ اس کا پہلا مرحلہ 2014 میں مکمل ہوا جبکہ دوسرے مرحلے کے پراجیکٹ کو حکومتِ سندھ نے مسترد کر دیا ہے۔

تھر کینال

یہ نہر رینی کینال سے شاخ کے طور پر نکالنے کی تجویز ہے، تاہم اس کا درست نکاسی مقام ابھی واضح نہیں ہے۔ اس کے ذریعے گھوٹکی، سکھر، خیرپور، سانگھڑ اور میرپور خاص کے اضلاع میں تقریباً 3 لاکھ ایکڑ زمین کو سیراب کرنے کا ہدف ہے۔ یہ منصوبہ تاحال منظور نہیں ہوا اور سندھ حکومت نے اب تک ارسا سے پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے درخواست بھی نہیں دی ہے۔

. کچھی کینال فیز2

یہ نہر دریائے سندھ پر تونسہ بیراج سے نکالی گئی ہے۔ اس کا ہدف پنجاب اور بلوچستان میں 7 لاکھ ایکڑ زمین کو سیراب کرنا ہے۔ فیز ون تقریباً مکمل ہو چُکا ہے کیلن فیز 2کی منظوری ابھی نہیں ملی۔

چشمہ بیراج سے نکالی جا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب کے 3 لاکھ ایکڑ کو سیراب کرے گی۔ مارچ 2025 تک 34 کروڑ 10 لاکھ روپے جاری، ایوارڈ کے مرحلے میں ہے

سندھ کے خدشات

ڈیلٹا کا ماحولیاتی بحران

مزید نہریں نکالنے سے میٹھے پانی کی کمی سے سمندری پانی آگے آئے گا، جنگلات اور آبی حیات متاثر ہوگی۔

وفاق پر عدم اعتماد:

سندھ کو شعبہ ہے کہ وفاقی حکومت پنجاب کے مفادات کو ترجیح دیتی ہے اور ارسا جیسے ادارے غیر مؤثر ہیں۔ 

سندھ کی سیاسی جماعتیں اس منصوبے کو  پنجاب نوازی اور فوجی اداروں کے مفاد سے جوڑتی ہیں۔

مشاورت کے بغیر منصوبہ بندی

سندھ کا کہنا ہے کہ کونسل آف کامن انٹرسٹس میں مکمل تکنیکی و سیاسی مشاورت کے بغیر اتنے بڑے منصوبے ط نہیں کیے جا سکتے۔

وفاق اور پنجاب حکومت کا مؤقف

زرعی خودکفالت اور ترقی کا منصوبہ:

وفاق کہتا ہے کہ منصوبہ خوراک، روزگار اور زرعی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔اگر پاکستان کو شدید غذائی قلت سے بچانا ہے تو اُس کی منصوبہ بندی آج سے ہی کرنی ہے۔

پانی 1991 کے معاہدے کے مطابق ہوگا

ارسا کی نگرانی کافی ہے:

وفاق کے مطابق ارسا کا ادارہ  روزانہ کی بنیاد پر پانی کی تقسیم کرتا ہے،جس میں مکمل  شفافیت موجود ہے۔

ملکی مفاد، صوبائی تعصب نہیں

وفاق اور پنجاب کا کہنا ہے کہ تمام صوبے مستفید ہوں گے۔ اور قومی سلامتی کے معاملات کو صوبہ پرستی کی سیاست اور تعصب کی نذر نہیں کرنا چاہیے۔

ماحولیاتی رپورٹس موجود

حکومت کے مطابق تمام ماحولیاتی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے۔صحراؤں کو سرسبز بنانے سے ماحول خراب نہیں ہوگا بلکہ یہ سبزہ کاربن جذب کر کے ماحول میں بہتری لائے گا

قومی یکجہتی ضروری

وفاقی حکومت کہتی ہے کہ ترقیاتی منصوبے قومی مفاد میں ہیں ۔ معشیت ترقی کرے گئی تو مُلک رترقی کرے گا اس مقصد کے لیے پوری قوم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔

سندھ مطمئن کیوں نہیں

وفاق کے ان متاثر کُن دلائل سے سندھ کے لو گ آخر ٹس سے مس کیوں نہیں ہو رہے۔ اس لیے کہ ایک تو وہ ماضی کا حوالہ دے کے کہتے کہ ہیں پہلے کب آپ نے اپنے وعدوں کا پاس کیا جو اب کریں گے۔ ارسا جو بظاہر ایک قانونی اور غیر جانبدار ادارہ ہے اُس پہ بھی سندھ کے لوگوں کو اعتبار نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نہ اُس کے ممبران کی تقرریاں شفاف ہیں نہ اس کا ڈیٹا۔

صورت حال یہ ہے اس ادارے میں وفاق کا جو نمائندہ سند ھ کی مرضی سے مقرر ہونا تھا اُس جگہ بھی کسی اور کو زبردستی بیٹھا دیا گیا ہے۔ آخر کار عدالت کی مداخلت سے سندھ کی مرضی سے تقرری سمری آج وفاق کو بھجوائی گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں یہ ادارہ برائے نام ہی آزاد ہے اور وہی کرتا ہے جو بااختیار لوگ چاہتے ہیں۔ سندھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن منصوبوں میں بین الصوبائی معاملات طے کیے جانے ہوتے ہیں اُن پر بحث اور فیصلہ کرنے کا آئینی ادارہ کونسل آف کامن انٹرسٹس ہے۔ لیکن موجودہ گرین انیشیٹو کو اس فورم پہ زیر بحث نہیں لایا گیا۔ سندھ کہتا کہ دلائل کچھ بھی ہوں ہماری زندگیاں سندھ ڈیلٹا سے وابستہ ہیں اور اس کی تباہی ہمیں منظور نہیں۔

پنجاب کا مسلہ جس سے پنجابی بے خبر ہیں

جو نکتہ اس تمام بحث میں نسبتاً کم زیرِ بحث آیا ہے لیکن  وہ یہ ہے کہ اگر پنجاب صرف اپنے حصے کا پانی استعمال کر رہا ہے، تو کیا یہ پانی نئے علاقوں کو دینے کے لیے موجودہ آباد علاقوں سے کاٹا  نہیں جائے گا؟ یہ سوال خود پنجاب کے کسانوں اور ماہرین کے اندر بھی تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔ لیکن پنجاب کے لوگوں کو نہ تو اس بارے میں کوئی آگاہی دی جا ری ہے نہ ہی اعتماد میں لیا جا رہا ہے۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ 1991 کے معاہدے کے تحت پنجاب کو جو پانی کا حصہ ملا ہے، وہ پہلے ہی مکمل طور پر استعمال ہو رہا ہے  خاص طور پر ربیع اور خریف کے سیزن میں۔ اگر اس حصے کا پانی نئی بنجر زمینوں کو دینے کی کوشش کی جائے گی، تو یہ لازمی طور پر پہلے سے آباد علاقوں کو ملنے والے پانی میں کمی کا باعث بنے گا۔ یعنی جنوبی، وسطی یا یہاں تک کہ شمالی پنجاب کے کئی علاقوں میں کاشتکاروں کو پانی کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ 

خشک ہوتے دریاؤں کا المیہ : ابھی کل ہی ایک عالمی ادارے نے خبر دار کیا ہے ہمالیہ اور اس سے جڑے پہاڑوں پر جمی برف کی مقدار پچیس سالوں کی کم تریں سطح پر پہنچ گئی ہے۔ یہ خطرے کی ایک بڑی گھنٹی ہے۔  پنجاب کے جو کاشکار ابھی سولر سسٹم کے ٹیوب ویلوں سے نکلتے مفت پانی پر مطمئن ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ جب زمینی پانی نیچے چلا جائے تو پائپوں سے آب حیات  نہیں صرف ہوا نکلتی ہے۔

کمیاب نعمت کا ضیاع : ماہرین کہتے ہیں کہ موجودہ نہری نظام اتنا بوسیدہ ہو چُکا ہے کہ اس کا 40 سے 50 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ جب تک ہم اس پانی کو بچانے کا کوئی بندوبست نہیں کر لیتے تب تک بنجر زمینوں کو آباد کرنا ممکن نہیں۔

تو مسلے کا حل کیا ہے

اب تک جو صورت بن چُکی ہے اس میں مسئلے کا حل تو مذاکرات ہی ہیں۔ اور اچھی بات یہ ہے ان میں پیش رفت کی بھی خبریں ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی عالی ترین قیادت اب اس معاملہ کو حل کرنا چاہتی ہے۔ آ ج ہی ڈان نے اس مسلے پر قومی کانفرنس بُلانے کا حکومتی ذمہ دار کا بیان شہ سرخی کے ساتھ چھاپا ہے۔ 

لیکن مسلہ اب صرف حکومتی اتحاد کا نہیں سارے پاکستانیوں کا ہے۔ خاص طور کاستکاروں کی تنظیموں اور صوبوں کے عوامی حلقوں کی نمائندگی کرنے والے افراد کو اس صلاح مشورے کا حصہ بنانا جانا چاہیے۔

قوم پرست پارٹیوں کی زیادہ توجہ صوبائیت  کی سیاست پہ ہوتی ہے لیکن یہ سیاست کا موقع نہیں۔ نہ تو پاکستان اپنی غذائی ضروریات سے بے نیاز ہو کر اپنے لوگوں کو بھوک اور قحط کے حوالے کر سکتا ہے اور نہ دوسرے علاقوں کا پانی چھین کر ایک غیر متعلقہ ادارے کی نگرانی میں ایک بنجر بیابان کو آباد کرنی کی کوشش کوئی دانشمندی ہے۔ 

وہ اگر کہتے ہیں کہ چولستان کینال آندھیوں میں حرکت کرنے والے ٹیلوں کی ریت سے بھر کر بیکار ہو جائے گی تو پھر اس کا متبادل بھی وہی بتاہیں گے ۔ رائے عامہ کے ذرائع نے اس قوم کو سمجھانا ہے کہ جس شے کو دن رات گندی گاڑیوں کے بمپر دھونے کے لیے اسمتعال کر رہے ہو وہ صرف پانی نہیں بلکہ ہماری معیشت کی رگوں میں دوڑنے والا خون ہے۔

اہم نوٹ

آج جب میں یہ آرٹیکل لکھ جا چُکا تھا تو اچانک خبر آئی کی انڈیا کی حکومت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا ہے۔ ساٹھ کی دہائی ہونے والا یہی وہ معاہدہ تھا جس کے تحت پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پانی کی تقسیم طے پائی تھی۔ پتہ نہیں کیوں کچھ دن پہلے پاکستان کے اندر بھی ایک مخصوص طبقہ اس معاہدے کو منسوخ کرنے کی باتیں کرنے لگا تھا ۔ اب یہ محض اتفاق ہے یا کوئی گہری چال کہ انڈیا نے یہ معاہدہ اُسی وقت منسوخ کیا ہے جب پاکستان کے اندر پانی کی تقسیم پر اختلافات بہت شدت اختیار کر چُکے ہیں۔ یہ ساری صورت حال محبِ وطن افراد کے لیے ایک نیا چیلنج ہے جو مزید احتیاط اور دانشمندی کا تقاضا کرتا ہے۔

Read Previous

نیم حکیم عامل اور جعلی ڈاکٹر، لوگ پھنس کیسے جاتے ہیں

Read Next

پانی کی کہانی۔سندھ طاس معاہدے کی حقیقت کیا ہے

2 Comments

  • بہت اچھی تحریر ہے – ااور کئی الجنیں سلجھ گئیں

    • بہت شکریہ زبیر صاحب، کوشش کی ہے کہ معاملے کو غیرجانبداری سے بیان کیا جائے!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Most Popular