نیم حکیم عامل اور جعلی ڈاکٹر، لوگ پھنس کیسے جاتے ہیں

Quackery in Pakistan, What you know bout it?

پاکستان میں شعبہ صحت کے بڑے مسائل میں سے کا ایک مسلہ جعلی ڈاکٹر نیم حکیم اور عامل پیر ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں چھ لاکھ کے قریب جعلی ڈکٹر یا حکیم کام کر رہے ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے سندھ ہلتھ کیئر کمیشن نے سندھ کے اُنتیس اضلاع کا سروے کیا تو پتہ چلا کہ 4315کلینکس میں سے 3022 یعنی 70 فیصد کلینک جعلی ڈاکٹر چلا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اس مسلے کا شکار ممالک میں سرِ فہرست ہے۔سمجدار لوگ تو ان افراد سے دور ہی رہتے ہیں لیکن کم تعلیم یافتہ اور غریب افراد اس جعلسازی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ جاننا سب کے لیے ضروری ہے کہ آخر پاکستان میں ان نوسربازوں کا وسیع نیٹ ورک کس طرح کام کرتا ہے اور یہ لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا کیسے لیتے ہیں ۔ یہ آگاہی نہ صرف آپ کو ان جعل سازوں کے نت نئے ہتھ کنڈوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے بلکہ آپ خود کو مناسب طور پر باخبر رکھ کر ان نام نہاد معالجوں کے دھندے کا زور بھی توڑ سکتے ہیں۔

مسلے کی وجوہات کیا ہیں

اس مسئلے کی پہلی وجہ تو یقینی طور پر کوالیفائیڈ ڈاکٹر اور حکومت کی طرف سے مہیا کی جانے والی صحت کی سہولیات  کی کمی ہے۔ لیکن اس مسلے اس کی وجہ ان کوالیفائیڈ ڈاکٹروں حکیموں عاملوں کا آسانی سے دستیاب ہونا اور ان کی طرف سے فوری شفا کے بلند باگ دعوے کرنا بھی ہے. اس کے علاوہ جدید طریقہ علاج سے لوگوں کی بدگمانی اور انگریزی دوائیوں کے سائیڈ افیکس کا پراپیگنڈا   بھی کوالیفائیڈ ڈاکٹروں کے پاس جانے کے بجائے لوگوں کو حکیموں ویدوں عاملوں کے پاس جانے کی ترغیب دیتا ہے.۔

ان نام نہاد ‘مشہور و معروف کا فوری شفا دینے والوں کا پبلسٹی کا ایک اپنا نظام ہے ان کے کارندے اپنے دوست احباب کی محفلوں میں بیٹھ کر کسی حکیم صاحب کی کرشماتی شفا کا قصہ اس طرح سنائیں گے کہ لوگ مرغوب ہو جاہیں گے۔ پاکستان کے ماحول میں کچھ معزز افراد جو اگرچہ کسی عامل پیر کے نیٹ ورک کا حصہ نہیں ہوتے لیکن وہ محض زبان کے چسکے یا یار دوستوں کو حیران کرنے کے لیے سنی سنائی بات کو ذاتی مشاہدہ بنا کر بیان کر دیں گے ۔ اب تو بے معار سوشل میڈیا نے فوری شفا والے چرب زُبانوں کا کام اور بھی آسان کر دیا ہے۔ دن بھر سکرول کی جانے والی ریلز میں یہ زُبان کے دھنی پتہ نہیں کیا کیا اوٹ پٹانگ باتیں پھیلا رہے ہوتے ہیں۔

عاملوں اور جادو کاروں کا تو پورا خفیہ نظام ہے۔ جو گھریلو ملازمین اور دوست احباب کے ذریعے کام کرتا ہے۔ انھیں گھر کے بھیدوں کے ذریعے ہی اُن حالات و واقعات کی خبر ان عامل جوگیوں کے پاس پہنچ جاتی ہے جیسے وہ اپنے سا ہلوں کے سامنے غیبی علم کی طرح بیان کرتے ہیں۔ اسی نیٹ ورک کے ذریعے کمزور اعتقاد والے لوگوں کا سروے کیا جاتا ہے اور پھر اُن کے گھر سے طرح طرح کی تویذ گنڈے اور دیگیں عجیب و غیریب چیزیں برآمد کی جاتیں ہیں۔

جعسازوں کے چُنگل میں پھنسنے کے نتائج

اس  خیال کو عام کر دیا گیا ہے کہ دیسی اور متبادل طریقہ علاج کا کوئی نقصان نہیں ہوتا اور ان دوائیوں کے سائیڈ افیکس نہیں ہوتے جبکہ حقیقت یہ ہے کچھ جڑی بوٹیوں کے خاصے  سائیڈ افیکس بھی ہوتے ہیں۔ لیکن اصل خطرہ اُن حکیموں اور جعلی ڈاکٹروں سے ہوتا ہے جو مریض کو فوری آرام دینے کے لیے سٹیرائیڈز کا استمعال کرتے ہیں۔ اس سے فوری طور پر آرام تو محسوس ہوتا  لیکن جسم کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔

  تشخیص اور علاج میں تاخیر :عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر ہم کسی روحانی عامل پیر یا غیر سند یافتہ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو اس سے اگر کچھ فائدہ نہیں ہوتا تو کوئی نقصان بھی نہیں ہوگا۔ جبکہ درحقیقت  لسب سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ اگر مریض کوئی موزی مرض لاحق ہے تو اس کی تشخیص میں دیر ہو جائے گی۔ اور وہ مرض اس سٹیج پہ پہنچ جائے گا جہاں شاید کوالیفائیڈ ڈاکٹرز کے لیے بھی اس کو کنٹرول کرنا آسان نہ ہو گا۔اس بات کو بہت اچھے طریقے سے سمجھ لینا چاہیے کہ غیر سند یافتہ ڈاکٹر ز عامل  اور حکیم امراض کی بر وقت تشخیص میں تاخیر کی وجہ بن کر لوگوں کو سخت نقصان پہنچا رہے ہیں رہے ہیں جو کہ ایک مجرمانہ فعل  کے ہے۔

بیماریوں کا پھیلاؤ : اگر موزی امراض کو وقت پر کنٹرول نہ کیا جائے تو وہ کیمونٹی گلی محلے کے دوسرے افراد تک پھیلنے پہ قدرت رکھتی ہیں اور اس طرح موزی امراض جیسے یرقان ملیریا ڈنگی ہیضہ وغیرہ بروقت کنٹرول نہ ہونے سے پوری بستی اور مقامی آبادی کو لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

مالی نقصان: اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہم تھوڑے سے پیسے بچانے کے لیے ڈاکٹر کے پاس جانے سے گریز کرتے ہیں لیکن مرض بگڑ جانے کی صورت میں اس سے کہیں زیادہ مالی رقم علاج معالج پر خرچ ہو جاتی ہے۔

مسلے کا حل

مسئلہ کا دیر پا حل تو حکومت کی طرف سے علاج معالجے کی آسان اور سستی سولیات کو عام کرنا ہی ہے لیکن اس کا ایک حل آگائی اور اس مسئلہ کے بارے میں جان لینا اور اپنے دوستوں  آپ کو آگاہ کرنا بھی ہے۔ ضروری ہے کہ کسی بھی مرض کی علامات نمودار ہونے کی صورت میں آپ کسی جعلی ڈاکٹر غیر مستند حکیم یا عامل کے پاس جانے کے بجائے کوالیفائیڈ ڈاکٹر سے فورا رجوع کریں اور ضروری ٹسٹوں کے ذریعے اپنے مرض کی فوری تشخیص کروائیں اور پھر اس کا علاج شروع کردیں۔

حکومتی سطح پر ان ڈاکٹروں اور جعلی حکیموں کے خلاف کاروائی کے دعوئے تو بہت کیے جاتے ہیں لیکن حکومتوں کے اور بڑے مساہل ہوتے ہیں اور شاید یہ مسلہ کسی کی ترجیح میں شامل نہیں۔ اس لیے اس مسلے کا بہترین حل ہم سب کا اس معاملے سے خود آگا ہ ہونا اور اپنے آس پاس کے لوگوں بھی اس کا شعور دینا ہی ہے۔

    Read Previous

    کیا آپ اپنے آپ سے غافل ہیں ؟ جائزہ اور عملی تدابیر

    Read Next

    منصوعی ذہانت نے کمپوٹر کا سارا نظام خود سنبھال لیا؟ ۔افواہیں اور حقیقت

    Leave a Reply

    آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

    Most Popular