
Dangers of Self Medication in Pakistan
پاکستان میں صحت کے مساہل میں ایک بڑا مسئلہ خود سے علاج یا سلف میڈیکیشن ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کسی مرض کے سلسلے میں ڈاکٹر نے پہلے کوئی دوائی تجویز کی تو پھر مریض کچھ عرصے بعد اس مرض جیسی علامات پیدا ہونے کی صورت میں وہ دوائی خود ہی لینا شروع کردیتا ہے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان سلیف میڈ کیش کا تناسب 98 فیصد ہے اس سلسلے یونیورسٹی طلبا میں خود سے دوائیاں لینے کے ایک سروے کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ جبکہ ایک دوسری ٹحقیق کے مطابق کراچی کے شہریوں میں خود سے دوائیاں لینے کا رجحان 84 فیصد سے زیادہ ہے۔ جبکہ مختلف امراض کی علامات اکثر ملتی جلتی ہوتی ہیں اور غلط دوائی لینے سے نقصان ہو سکتا ہے۔
لوگ اپنے ڈاکٹر آپ کیوں بن جاتے ہیں
پاکستان میں وسیع پیمانے پر پائے جانے والے اس طرز عمل کی وجوہات میں دوائیوں کی آسانی سے دستیابی شامل ہے، بغیر ڈاکٹر کے تجویز کردہ نسخے کے کسی بھی میڈیکل سٹور سے دوائی حاصل کی جا سکتی ہے ہے اور لوگ اسے آرام سے استعمال کر لیتے ہیں۔ کسی دوائی کو خود سے استعمال کرنے کی عادت ڈال لینا آپ کی صحت کے لیے نقصان دے ہے۔
دنیا میں تما دوائیاں اس اصول کے تحت بنائی جاتیں ہیں کہ ان کے کسی خاص بیماری کے لیے فوائد اُن کے عمومی نقصانات سے زیادہ ہیں۔ یعنی کوئی بھی دوائی اپنے ضمنی نقصانات یا سائیڈ افیکٹس سے پاک نہیں ہوتی ۔ اگر آپ کبھی دوائی کے ساتھ ڈبی میں معیا کی جانے والی پرچی کو پڑھیں تو آپ حیران بلکہ پریشان ہو جاہیں گے کہ اس دوئی کے نامناسب استمعال سے کیسے کیسے مسائل میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ دوائی خود سے استمعال کرنے کا اصل نقصان یہ بھی ہے کہ اگر آپ کوئی اور دوائی استمعال کر رہے ہیں تو خود سے لی جانے والے دوائی اُس کے ساتھ انٹر ایکشن یعنی مضر ردعمل کر سکتی ہے۔ کیونکہ ڈاکٹر جب بھی دوائیاں تجویز کرتے ہیں سوچ سمجھ کر کرتے ہیں اور یہ جان کر کرتے ہیں کون سی دوائی کا کس اور دوائی کے ساتھ منفی ردِ عمل ہو سکتا ہے۔ اس لیے بنا ڈاکٹر کے نسخے کے خود سے کوئی دوائی شروع کرنے سے ہمیشہ پرہیز کرنی چاہیے۔

بہترین طرزِعمل
اس مسلے سے بچنے کا طریقہ بھی یہی ہے کہ آپ اگر پرائیویٹ ڈاکٹر کے پاس نہیں بھی جانا چاہتے تو کسی سرکاری ہسپتال میں تھوڑا سا انتظار کر کے ایک بار اپنے امراض اور علامات کو چیک کروا لیں اور اس کے بعد ڈاکٹر کے تجویزکردہ نسخے کے مطابق دوائی کا استعمال کریں۔ کچھ لوگ اپنے واقف کار مستند ڈاکٹر حضرات سے ٹیلی فون پہ رابطہ کر لیتے ہیں ایسے میں ظاہر ہے کہ ڈاکٹر محسوس کرے کہ آپ کا فوری طور پہ اس کے پاس جا کے مکمل چیک اپ کرانا ضروری ہے تو وہ آپ کو ٹیلی فون پہ بتا دے گا یا علامات معمولی ہیں تو کوئی دوائی ٹیلی فون پر ہی تجویز کر دے گا۔ ایسا کرنا خود سے دوائی کھانے سے کہیں بہتر ہے۔معمولی امراض کے علاج کے لیے حکومت نے ٹیلی میڈیسن اور اے آئی کی مدد سے کچھ منصوبے شروع کرنے کا پروگرام بنایا ہے جن سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔